بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے تین متنازعہ شقوں پر عارضی ریلیف دیے جانے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ "انصاف اب بھی زندہ ہے۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے وقف ایکٹ کو مکمل طور پر کالعدم کرنے سے انکار کر دیا ہے، تاہم قانون کی بعض شقوں میں ترمیم کرتے ہوئے ایک شق پر مکمل اسٹے لگا دیا ہے۔ جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری اپنے پیغام میں کہا کہ "وقف قانون کی تین اہم متنازعہ شقوں پر ملنے والی عارضی ریلیف پر جمعیت علماء ہند خوش ہے اور یہ ریلیف ہمارے لیے امید کی کرن ہے کہ انصاف زندہ ہے۔"
مولانا مدنی نے مزید کہا کہ جمعیت اس کالے قانون کو ختم کرنے تک قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھے گی۔ انہوں نے اس نئے وقف قانون کو بھارتی آئین پر براہِ راست حملہ قرار دیا جو تمام شہریوں بشمول اقلیتوں کو برابر کے حقوق اور مکمل مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے۔
مولانا مدنی نے اس قانون کو "آئین مخالف سازش" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھیننے کی کوشش ہے اور جمعیت علماء ہند نے پہلے ہی اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہمیں یقین ہے کہ عدالت بالاخر اس کالے قانون کو ختم کرے گی اور ہمیں مکمل آئینی انصاف دے گی، انشاء اللہ۔"
سپریم کورٹ نے پیر 15 ستمبر کو وقف ایکٹ کی بعض شقوں پر عارضی روک لگا دی ہے۔ چیف جسٹس بی آر گاوی اور جسٹس اے جی مصیح پر مشتمل بنچ نے اس شق کو معطل کیا جس میں کہا گیا تھا کہ وقف بنانے والا شخص کم از کم پانچ سال تک اسلام پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے، جب تک اس حوالے سے مزید وضاحت نہ آ جائے۔ عدالت نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ ضلع کلکٹر وقف سے متعلق جائیداد کے تنازعات کا فیصلہ نہیں کریں گے، جبکہ ریاستی وقف بورڈ میں تین سے زیادہ غیر مسلم اراکین اور مرکزی وقف بورڈ میں چار سے زیادہ غیر مسلم اراکین شامل نہیں ہو سکیں گے۔
یہ فیصلے مسلمانوں کی مذہبی حقوق اور وقف کے انتظامی نظام پر اہم اثرات مرتب کریں گے، اور اس حوالے سے قانونی و سیاسی سطح پر جاری جدوجہد کو مزید تقویت ملے گی۔
آپ کا تبصرہ